EN हिंदी
محبت کر کے لاکھوں رنج جھیلے بیکلی پائی | شیح شیری
mohabbat kar ke lakhon ranj jhele bekali pai

غزل

محبت کر کے لاکھوں رنج جھیلے بیکلی پائی

مضطر خیرآبادی

;

محبت کر کے لاکھوں رنج جھیلے بیکلی پائی
وہ مجھ کو کیا ملے اک موت گویا جیتے جی پائی

وہ بلبل ہوں کہ جس دن سے لٹا ہے آشیاں میرا
اٹھا لایا میں اپنا دل سمجھ کر جو کلی پائی

شکایت اس کی کیا تجھ سے یہ اپنی اپنی قسمت ہے
کہ میری آنکھ کو آنسو ملے تو نے ہنسی پائی

جہاں میں واقعی مضطرؔ کا بھی اک دم غنیمت تھا
مگر افسوس تھوڑے دن جیا کم زندگی پائی