محبت کر کے لاکھوں رنج جھیلے بیکلی پائی
وہ مجھ کو کیا ملے اک موت گویا جیتے جی پائی
وہ بلبل ہوں کہ جس دن سے لٹا ہے آشیاں میرا
اٹھا لایا میں اپنا دل سمجھ کر جو کلی پائی
شکایت اس کی کیا تجھ سے یہ اپنی اپنی قسمت ہے
کہ میری آنکھ کو آنسو ملے تو نے ہنسی پائی
جہاں میں واقعی مضطرؔ کا بھی اک دم غنیمت تھا
مگر افسوس تھوڑے دن جیا کم زندگی پائی

غزل
محبت کر کے لاکھوں رنج جھیلے بیکلی پائی
مضطر خیرآبادی