محبت کا یہ رخ دیکھا نہیں تھا
وہ یوں بدلے گا یہ سوچا نہیں تھا
عجب ہے سہہ کے زخم بے وفائی
یہ دل کہتا ہے وہ ایسا نہیں تھا
سبب کوئی تو ہے ان نفرتوں کا
میں جھوٹا تھا کہ وہ سچا نہیں تھا
نہ جانے کیوں مرے حصے میں آیا
وہ دکھ قسمت میں جو لکھا نہیں تھا
بہت تنہائیاں تھیں اس سے پہلے
مگر اتنا بھی میں تنہا نہیں تھا
چلو کچھ تو گھٹن کم ہو گئی ہے
بہت دن ہو گئے رویا نہیں تھا
کنارے پر کھڑا وہ کہہ رہا ہے
سمندر اس قدر گہرا نہیں تھا
سبھی کچھ ہے ندیمؔ اب پاس میرے
بس اک وہ شخص جو میرا نہیں تھا
غزل
محبت کا یہ رخ دیکھا نہیں تھا
فرحت ندیم ہمایوں