محبت کا صلہ کار محبت سے نہیں ملتا
جو افسانے سے ملتا ہے حقیقت سے نہیں ملتا
میں اس کو اس کے باہر دیکھتا ہوں سخت مشکل میں
کوئی بھی عکس اس کا اصل صورت سے نہیں ملتا
ملاقات اس سے اب تو بالا بالا بھی نہیں ممکن
چھتوں کا سلسلہ ایک اس کی ہی چھت سے نہیں ملتا
کہاں سے لائیں عشق اتنا کہ اس تک بار پائیں ہم
وہ خود بیرون صحرا اہل وحشت سے نہیں ملتا
کہ اب در پیش رہتے ہیں کئی اپنے بھی کام اس کو
وہ پہلے کی طرح اب اپنے فرحتؔ سے نہیں ملتا
غزل
محبت کا صلہ کار محبت سے نہیں ملتا
فرحت احساس