EN हिंदी
محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے | شیح شیری
mohabbat ibtida mein kuchh nahin malum hoti hai

غزل

محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے

مضطر خیرآبادی

;

محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے
مگر پھر دشمن ایمان و دیں معلوم ہوتی ہے

وجود ذات عکس عالم ہستی سے ہے ثابت
تری صورت ہی صورت آفریں معلوم ہوتی ہے

میں ملنا چاہتا ہوں تجھ سے ایسے طور پر جا کر
جہاں تیری تجلی بھی نہیں معلوم ہوتی ہے

گئے ہم دیر سے کعبے مگر یہ کہہ کے پھر آئے
کہ تیری شکل کچھ اچھی وہیں معلوم ہوتی ہے

تری برق تجلی کے چلن ہم سے کوئی پوچھے
چمکتی ہے کہیں لیکن کہیں معلوم ہوتی ہے

ترا اعجاز قدرت ہے کہ ہستی کی نمائش میں
زمانے بھر کو شکل اپنی حسیں معلوم ہوتی ہے

دل مضطرؔ خدا کے واسطے اس سے کنارہ کر
محبت دشمن جان حزیں معلوم ہوتی ہے