محبت باعث دیوانگی ہے اور بس میں ہوں
کہ اب پیہم عنایت آپ کی ہے اور بس میں ہوں
سکوں حاصل ہے دن میں اور نہ شب کو چین ملتا ہے
کہ اب تو کشمکش میں زندگی ہے اور بس میں ہوں
نہ جانے ماجرا کیا ہے نظر کچھ بھی نہیں آتا
کہ اب حد نظر تک تیرگی ہے اور بس میں ہوں
نہیں ہے آج مجھ کو خدشۂ ظلمت زمانے میں
رخ تاباں کی ان کے روشنی ہے اور بس میں ہوں
قدم کیا ڈگمگائیں گے رہ الفت میں اے ساقی
بہت ہی مختصر سی بے خودی ہے اور بس میں ہوں
ترے نقش قدم پر سر جھکانا کام ہے اپنا
خدا شاہد یہ میری بندگی ہے اور بس میں ہوں
انہیں روداد غم اپنی سناؤں کس طرح قیصرؔ
وہی ان کی ادائے برہمی ہے اور بس میں ہوں
غزل
محبت باعث دیوانگی ہے اور بس میں ہوں
قیصر نظامی