مژگاں وہ جھپکتا ہے اب تیر ہے اور میں ہوں
سر پاؤں سے چھدنے کی تصویر ہے اور میں ہوں
کہتا ہے وہ کل تیرے پرزے میں اڑاؤں گا
اب صبح کو قاتل کی شمشیر ہے اور میں ہوں
بے جرم و خطا جس کا خوں ہووے روا یارو
اس خوبیٔ قسمت کا نخچیر ہے اور میں ہوں
ہے قتل کی دھن اس کو اور میری نظر حق پر
تدبیر ہے اور وہ ہے تقدیر ہے اور میں ہوں
دل ٹوٹا نظیرؔ اب تو دو چار برس رو کر
اس قصر شکستہ کی تعمیر ہے اور میں ہوں
غزل
مژگاں وہ جھپکتا ہے اب تیر ہے اور میں ہوں
نظیر اکبرآبادی