مژگاں نے روکا آنکھوں میں دم انتظار سے
الجھے ہیں خار دامن باد بہار سے
مطلب خزاں سے ہے نہ غرض ہے بہار سے
ہم دل اٹھا چکے چمن روزگار سے
یہ گل کھلا نہ لالہ رخوں کے فراق میں
ہم داغ لے چلے چمن روزگار سے
بسمل جو ہیں تو ہم ہیں تڑپتے جو ہیں تو ہم
وہ خوش ہیں صید گاہ میں سیر شکار سے
آغاز عشق ہے وہ بڑھاتے ہیں رسم و راہ
ہم دل میں خوف کرتے ہیں انجام کار سے
ان کو ہوا جو نشۂ مے میری بن پڑی
پردہ کھلا نہ دامن موج خمار سے
کلکتہ سے بھی کیجیئے حاصل کوئی تو علم
سیکھیں گے سحر سامری ہم چشم یار سے
اے مہرؔ یہ غزل وہ پر اعجاز و گرم ہے
آتشؔ اگر سنے نکل آئے مزار سے
غزل
مژگاں نے روکا آنکھوں میں دم انتظار سے
عبداللہ خاں مہر لکھنوی