EN हिंदी
مژگان تر ہوں یا رگ تاک بریدہ ہوں | شیح شیری
mizhgan-e-tar hun ya rag-e-tak-e-burida hun

غزل

مژگان تر ہوں یا رگ تاک بریدہ ہوں

خواجہ میر دردؔ

;

مژگان تر ہوں یا رگ تاک بریدہ ہوں
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں

کھینچے ہے دور آپ کو میری فروتنی
افتادہ ہوں پہ سایۂ قد کشیدہ ہوں

ہر شام مثل شام ہوں میں تیرہ روزگار
ہر صبح مثل صبح گریباں دریدہ ہوں

کرتی ہے بوئے گل تو مرے ساتھ اختلاط
پر آہ میں تو موج نسیم دزیدہ ہوں

تو چاہتی ہے تو تپش دل کہ بعد مرگ
کنج مزار میں بھی نہ میں آرمیدہ ہوں

اے دردؔ جا چکا ہے مرا کام ضبط سے
میں غم زدہ تو قطرۂ اشک چکیدہ ہوں