مزاج گردش دوراں وہی سمجھتے ہیں
جو رسم و راہ غم عاشقی سمجھتے ہیں
وہ کون لوگ تھے راس آئی جن کو غربت بھی
ہمیں تو اہل وطن اجنبی سمجھتے ہیں
شکست دل کا یہ اک لازمی نتیجہ ہے
حضور آپ جسے سادگی سمجھتے ہیں
بڑی لطیف ہے یہ لذت طلب لیکن
کچھ اس کو تیرے گنہ گار ہی سمجھتے ہیں
چھپاؤ ہم سے نہ شاہینؔ راز دل اپنا
کہ ہم زباں نگہ شوق کی سمجھتے ہیں
غزل
مزاج گردش دوراں وہی سمجھتے ہیں
شاہین غازی پوری