مزاج غم سمجھتا کیوں نہیں ہے
مرا ادراک مجھ سا کیوں نہیں ہے
گرجتا ہے برستا کیوں نہیں ہے
یہاں بادل بھی سچا کیوں نہیں ہے
کہاں تک آئنوں کو ہم بدلتے
ہمارا کچھ بھی اچھا کیوں نہیں ہے
نہیں سنتا کھری اک بات کوئی
کھرا سکہ بھی چلتا کیوں نہیں ہے
سفر جاری ہے اور میں کس سے پوچھوں
کوئی رستہ بھی سیدھا کیوں نہیں ہے
تعجب ہے یہاں اس شہر میں اب
کسی کاندھے پہ چہرا کیوں نہیں ہے
وہ ساگر ہے اگر تو کیوں ہے پیاسا
وہ گاگر ہے تو بھرتا کیوں نہیں ہے
بہت اشجار ہیں ان راستوں میں
مرے سر پھر بھی سایا کیوں نہیں ہے
بریدہ پر نہیں کوئی قفس میں
پرندہ پھر بھی اڑتا کیوں نہیں ہے
اگرچہ داستاں میری ہے پھر بھی
کوئی کردار مجھ سا کیوں نہیں ہے
بہا دیتا ہے کیوں آنسو میں طالبؔ
غزل کے شعر کہتا کیوں نہیں ہے
غزل
مزاج غم سمجھتا کیوں نہیں ہے
مرلی دھر شرما طالب