مزاج دہر میں ان کا اشارہ پائے جا
جو ہو سکے تو بہرحال مسکرائے جا
بہار صد چمنستان آرزو بن کر
مرے خیال کی رنگینیوں میں آئے جا
خرد نواز نگاہوں کی آڑ میں رہ کر
فضائے عالم دیوانگی پہ چھائے جا
پلائے جا کہ ابھی ہوش بے خودی ہے مجھے
پلائے جا مجھے ساقی ابھی پلائے جا
دل و جگر پہ گزر جائے گی جو گزرے گی
تری نظر سے جو فتنے اٹھیں اٹھائے جا
ذرا ٹھہر کہ اب انجام سوز غم ہے قریب
چراغ زیست بھڑکنے کو ہے بجھائے جا
سکوت میت فانیؔ ہے اک فسانۂ شوق
لب خموش سے ہر مدعا کو پائے جا

غزل
مزاج دہر میں ان کا اشارہ پائے جا
فانی بدایونی