میاں وہ جان کترانے لگی ہے
تمنا مجھ کو سمجھانے لگی ہے
شرافت اس قدر رسوا ہوئی ہے
عمل پر اپنے شرمانے لگی ہے
جوانی کی میاں دہلیز پر ہے
غزل اب میری اترانے لگی ہے
خدارا چھوڑ دیجے شوخ حسرت
جو بو کافور کی آنے لگی ہے
سدھارا ہے اسے دو چار دس نے
تمہاری یہ غزل پانے لگی ہے
ترا دیدار ہو حسرت بہت ہے
چلو کہ نیند بھی آنے لگی ہے
خریدی جا رہی ہے سبزیوں سی
غزل بازار میں آنے لگی ہے

غزل
میاں وہ جان کترانے لگی ہے
ساجد پریمی