مٹی تھی خفا موج اٹھا لے گئی ہم کو
گرداب میں ساحل کی بلا لے گئی ہم کو
ہم کب سے لپکتے ہوئے شعلوں میں کھڑے ہیں
اس آگ میں اک گل کی ہوا لے گئی ہم کو
اک سرو کی خوش قامتی آنکھوں میں بسی تھی
جو ذلت دنیا سے بچا لے گئی ہم کو
سائے کے تعاقب میں گنوائی ہے مگر عمر
ہر سمت وہی ایک صدا لے گئی ہم کو
تو جان محبت ہے مگر تیری طرف بھی
اک خواہش تشہیر وفا لے گئی ہم کو
غزل
مٹی تھی خفا موج اٹھا لے گئی ہم کو
ساقی فاروقی