مٹا کے تیرگی تنویر چاہتا ہے دل
ہر ایک خواب کی تعبیر چاہتا ہے دل
جسے سنبھال کے رکھ لے زمانہ یادوں میں
وہ اپنی ذات کی تصویر چاہتا ہے دل
میں اپنے آپ سے جب جب سوال کرتا ہوں
مرے جواب میں تاثیر چاہتا ہے دل
سخن پیام ہو دنیا کے واسطے کوئی
دلوں کے واسطے تقریر چاہتا ہے دل
نہ چاہتا ہے کہ تیر و کماں کی بات کروں
نہ اپنے ہاتھ میں شمشیر چاہتا ہے دل
تمہیں سے رونقیں قائم ہیں بزم ہستی کی
تمہارے پیار کی جاگیر چاہتا ہے دل
وہ جس پہ رشک کرے ہر کوئی زمانے میں
قلم کی شوخیٔ تحریر چاہتا ہے دل
غزل
مٹا کے تیرگی تنویر چاہتا ہے دل
فیاض رشک