مٹ گیا غم ترے تکلم سے
لب ہوئے آشنا تبسم سے
کس کے نقش قدم ہیں راہوں میں
جگمگاتے ہیں ماہ و انجم سے
ہے زمانہ بڑا زمانہ شناس
کبھی مجھ سے گلا کبھی تم سے
ناخدا بھی ملا تو ایسا ملا
آشنا جو نہیں تلاطم سے
اس نے آ کر مزاج پوچھ لیا
ہم تو بیٹھے ہوئے تھے گم صم سے
ناخدا نے ڈبو دیا ان کو
وہ کہ جو بچ گئے تلاطم سے
زندگی حادثوں کی زد میں ہے
کوئی کیسے بچے تصادم سے
سایۂ گل میں بیٹھنے والو
گفتگو ہوگی دار پر تم سے
میں غزل کا اسیر ہوں اعجازؔ
شعر پڑھتا ہوں میں ترنم سے
غزل
مٹ گیا غم ترے تکلم سے
اعجاز رحمانی