مصرعے کے وسط میں کھڑا ہوں
شاید میں اندھا ہو گیا ہوں
سوئے ہوئے بیج جاگ جائیں
کھیتوں میں اشک بو رہا ہوں
دہلیز کے پاس سے کسی کے
پھینکے ہوئے خواب چن رہا ہوں
بستر میں رات سو رہی ہے
میں تیرے حضور جاگتا ہوں
ساری مردہ محبتوں کو
حیرت سے چھو کے دیکھتا ہوں
ٹوٹی ہوئی رقم کی طرح سے
بے کار میں خرچ ہو گیا ہوں
بھولا ہوں سمندروں پہ چلنا
گلیوں میں ڈوبنے لگا ہوں
تلوار پر نقش کھود کر کیا
قاتل سے داد چاہتا ہوں
بہروپ بدل لیا ہے تو نے
میں بھی تو تماشا بن گیا ہوں
غزل
مصرعے کے وسط میں کھڑا ہوں
شہنواز زیدی