مصر میں حسن کی وہ گرمئ بازار کہاں
جنس تو ہے پہ زلیخا سا خریدار کہاں
فیض ہوتا ہے مکیں پر نہ مکاں پر نازل
ہے وہی طور ولے شعلۂ دیدار کہاں
عیش و راحت کے تلاشی ہیں یہ سارے بے درد
ایک ہم کو ہے یہی فکر کہ آزار کہاں
عشق اگر کیجئے دل کیجئے کس سے خالی
درد و غم کم نہیں اس دور میں غمخوار کہاں
قیدی اس سلسلۂ زلف کے اب کم ہیں یقیںؔ
ہیں دل آزار بہت جان گرفتار کہاں
غزل
مصر میں حسن کی وہ گرمئ بازار کہاں
انعام اللہ خاں یقینؔ