EN हिंदी
مسمار ہوں کہ خود کو اٹھانے لگا تھا میں | شیح شیری
mismar hun ki KHud ko uThane laga tha main

غزل

مسمار ہوں کہ خود کو اٹھانے لگا تھا میں

شہاب صفدر

;

مسمار ہوں کہ خود کو اٹھانے لگا تھا میں
مٹی سے آسمان بنانے لگا تھا میں

بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑے
تصویر سے غبار ہٹانے لگا تھا میں

آواز دے کے روک لیا اس نے جس گھڑی
مایوس ہو کے لوٹ کے جانے لگا تھا میں

بھٹکا ذرا جو دھیان مرے ہاتھ جل گئے
بوسیدہ کاغذات جلانے لگا تھا میں

افسوس خواب مرگ نے مہلت نہ دی شہابؔ
سویا ہوا نصیب جگانے لگا تھا میں