مسمار ہوں کہ خود کو اٹھانے لگا تھا میں
مٹی سے آسمان بنانے لگا تھا میں
بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل پڑے
تصویر سے غبار ہٹانے لگا تھا میں
آواز دے کے روک لیا اس نے جس گھڑی
مایوس ہو کے لوٹ کے جانے لگا تھا میں
بھٹکا ذرا جو دھیان مرے ہاتھ جل گئے
بوسیدہ کاغذات جلانے لگا تھا میں
افسوس خواب مرگ نے مہلت نہ دی شہابؔ
سویا ہوا نصیب جگانے لگا تھا میں
غزل
مسمار ہوں کہ خود کو اٹھانے لگا تھا میں
شہاب صفدر