مثل نمرود ہر اک شخص خدائی مانگے
دل وہ پاگل ہے کہ خلقت کی بھلائی مانگے
ہم ہیں مجرم تو عدالت میں بلایا ہوتا
بول سکتے ہیں اگر کوئی صفائی مانگے
کتنی سرکش ہے تمنا کہ حضوری چاہے
کتنا بے باک ہے نالہ کہ رسائی مانگے
شوق چاہے کہ ابھی اور بگولے اٹھیں
وسعت دشت مری آبلہ پائی مانگے
کوئی تمکیں کوئی تسکیں کوئی تحسیں چاہے
ایک منذرؔ ہے کہ آشفتہ نوائی مانگے
غزل
مثل نمرود ہر اک شخص خدائی مانگے
بشیر منذر