مثل باد صبا تیرے کوچے میں اے جان جاں آئے ہیں
چند ساعت رہیں گے چلے جائیں گے سر گراں آئے ہیں
شام آزردگی کے ستائے ہوئے چوٹ کھائے ہوئے
مہرباں ہو کے مل ہم بہت آج نا شادماں آئے ہیں
عشق کرنا جو سیکھا تو دنیا برتنے کا فن آ گیا
کاروبار جنوں آ گیا ہے تو کار جہاں آئے ہیں
زخم کھلنے لگے پھر ابھرنے لگیں دل کی محرومیاں
یاد پھر تیرے انداز دلداریٔ جسم و جاں آئے ہیں
داستان شب ہجر ان کو سنانے کا دن یہ نہیں
محفل عشق میں آج ہی تو وہ کچھ مہرباں آئے ہیں
غزل
مثل باد صبا تیرے کوچے میں اے جان جاں آئے ہیں
اطہر نفیس