EN हिंदी
مثل ابر کرم ہم جہاں بھی گئے دشت کے دشت گلزار بنتے گئے | شیح شیری
misl-e-abr-e-karam hum jahan bhi gae dasht ke dasht gulzar bante gae

غزل

مثل ابر کرم ہم جہاں بھی گئے دشت کے دشت گلزار بنتے گئے

مجیب خیر آبادی

;

مثل ابر کرم ہم جہاں بھی گئے دشت کے دشت گلزار بنتے گئے
زرد چہرے تھے جھلسے ہوئے دھوپ سے تازگی پا کے گلنار بنتے گئے

جتنا بہتا گیا زندگی کا لہو اور ہوتے گئے حوصلے سرخ رو
سہل ہوتی گئی منزل جستجو راستے اور ہموار بنتے گئے

کچھ سفر کی تھکن سے بدن چور تھا کچھ زمیں سخت تھی آسماں دور تھا
کچھ تری زلف کے سائے بھی تھے گھنے پھر یہی سائے دیوار بنتے گئے

لاکھ آوارہ و آبلہ پا سہی منزلیں تو ہیں قدموں سے لپٹی ہوئی
وہ ہمیں ہیں کہ جب دھن سمائی کبھی برق پا نور رفتار بنتے گئے

اول اول تھیں راہیں بڑی پر خطر کون تھا جز غم دل شریک سفر
پھر جو پڑنے لگی منزلوں پر نظر دوست دشمن سبھی یار بنتے گئے

ہم بھی ٹھہرے مجیبؔ ایک شوریدہ سر جب نہ پایا کوئی قدر دان ہنر
آپ اپنے جنوں کے ثنا خواں ہوئے آپ اپنے پرستار بنتے گئے