مثال چرخ رہا آسماںؔ سر گرداں
پر آج تک نہ کھلا یہ کہ جستجو کیا ہے
یہاں تو کام تمنا ہی میں تمام ہوا
مگر انہوں نے نہ پوچھا کہ آرزو کیا ہے
یہ بحث کثرت و وحدت کی ہم سے کیوں واعظ
ہماری آنکھوں سے تو دیکھ چار سو کیا ہے
کوئی تو چاہئے رخنہ امیدواری کو
برائے چاک جگر حاجت رفو کیا ہے
مثل جہاں میں ہے ''مشتے نمونہ از خروار''
جو ہٹ دھرم نہیں تم ہو تو ہٹ کی خو کیا ہے
گواہ ہیں یہ تری بہکی بہکی باتوں کے
یہ جام کیا ہے یہ مے کیا ہے یہ سبو کیا ہے
تمہارے دانت نہیں ہیرے کی ہیں یہ کنیاں
تمہارے سامنے موتی کی آبرو کیا ہے
غزل
مثال چرخ رہا آسماںؔ سر گرداں (ردیف .. ے)
مرزا آسمان جاہ انجم

