مری زندگی کسی موڑ پر کبھی آنسوؤں سے وفا نہ دے
تری آنکھ کی یہ گھٹا کہیں یوں برس کے مجھ کو رلا نہ دے
وہی چھاؤں نیم کے پیڑ کی وہی شام دے یہ فضا نہ دے
گئے موسموں کا اسیر ہوں نئے موسموں کی سزا نہ دے
مرے ناخدا ترا شکریہ کوئی اور مجھ پہ کرم نہ کر
تری مصلحت کی ہوا کہیں مرا بادبان اڑا نہ دے
مرے خط کو لے کے خوشی سے وہ کئی بار چومے گی تو مگر
مجھے ڈر ہے بھیگا وہ لفظ اک مرے غم کا قصہ سنا نہ دے
وہی جس کے پیار کی آگ نے مرے خد و خال جھلس دیے
مجھے ڈر ہے اب مجھے دیکھ کے وہ نظر سے اپنی گرا نہ دے
تری شوخ آنکھوں میں بارہا کئی خواب دیکھے ہیں پیار کے
ترا پیار میرا نصیب ہے کسی اور کو یہ وفا نہ دے
غزل
مری زندگی کسی موڑ پر کبھی آنسوؤں سے وفا نہ دے
عتیق انظر