EN हिंदी
مری زندگی کی کتاب کا ہے ورق ورق یوں سجا ہوا | شیح شیری
meri zindagi ki kitab ka hai waraq waraq yun saja hua

غزل

مری زندگی کی کتاب کا ہے ورق ورق یوں سجا ہوا

ممتاز نسیم

;

مری زندگی کی کتاب کا ہے ورق ورق یوں سجا ہوا
سر ابتدا سر انتہا ترا نام دل پہ لکھا ہوا

یہ چمک دمک تو فریب ہے مجھے دیکھ گہری نگاہ سے
ہے لباس میرا سجا ہوا مرا دل مگر ہے بجھا ہوا

مری آنکھ تیری تلاش میں یوں بھٹکتی رہتی ہے رات دن
جیسے جنگلوں میں ہرن کوئی ہو شکاریوں میں گھرا ہوا

تری دوریاں تری قربتیں ترا لمس تیری رفاقتیں
مجھے اب بھی وجہ سکوں تو ہے تو ہے دور مجھ سے تو کیا ہوا

یہ گلے کی بات تو ہے مگر مجھے اس سے کوئی گلہ نہیں
جو اجڑ گیا مرا گھر تو کیا ہے تمہارا گھر تو بچا ہوا

ترے آنسوؤں سے لکھا ہوا مرے آنسوؤں سے مٹا ہوا
میں نسیمؔ خط کو پڑھوں بھی کیا کہ حصار آب ہی آب ہے

ترے آنسوؤں سے لکھا ہوا مرے آنسوؤں سے مٹا ہوا