مری زندگی ہے سراب سی کبھی موجزن کبھی تشنہ دم
کبھی انتظار کی دھوپ سی کبھی قربتوں کا کوئی بھرم
تری چاہتوں کا یہ سلسلہ کسی دھوپ چھاؤں کے کھیل سا
کبھی پوس ماگھ کی دھوپ سا کبھی نغمہ خواں کبھی چشم نم
مجھے چھو کے وقت گزر گیا ذرا رک کے عمر نکل گئی
جو رہا تو پاس یہی رہا کبھی اپنا دکھ کبھی سب کا غم
کبھی راستوں کے غبار میں کبھی منزلوں کے خمار میں
کبھی جستجوئے بہار میں رہے حادثوں سے بندھے قدم
ترا نام سن کے چلی پون ترا ذکر سن کے کھلا چمن
کہ مری سوانح زیست پر ترا نام لکھ کے رکا قلم
یہ ذرا ذرا سی شکایتیں کہیں بن نہ جائیں حکایتیں
یہی پوچھتے کہ ہوا ہے کیا کبھی ہم سے تم کبھی تم سے ہم
کبھی قربتوں کا سکوں ملا کبھی فرقتوں کا جنوں ملا
کبھی کھو گئے سبھی راستے کبھی منزلوں سے ملے قدم

غزل
مری زندگی ہے سراب سی کبھی موجزن کبھی تشنہ دم
جگدیش پرکاش