EN हिंदी
مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی | شیح شیری
meri zindagi bhi meri nahin ye hazar KHanon mein baT gai

غزل

مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی

بشیر بدر

;

مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی
مجھے ایک مٹھی زمین دے یہ زمین کتنی سمٹ گئی

تری یاد آئے تو چپ رہوں ذرا چپ رہوں تو غزل کہوں
یہ عجیب آگ کی بیل تھی مرے تن بدن سے لپٹ گئی

مجھے لکھنے والا لکھے بھی کیا مجھے پڑھنے والا پڑھے بھی کیا
جہاں میرا نام لکھا گیا وہیں روشنائی الٹ گئی

نہ کوئی خوشی نہ ملال ہے کہ سبھی کا ایک سا حال ہے
ترے سکھ کے دن بھی گزر گئے مری غم کی رات بھی کٹ گئی

مری بند پلکوں پر ٹوٹ کر کوئی پھول رات بکھر گیا
مجھے سسکیوں نے جگا دیا میری کچی نیند اچٹ گئی