مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی
مجھے ایک مٹھی زمین دے یہ زمین کتنی سمٹ گئی
تری یاد آئے تو چپ رہوں ذرا چپ رہوں تو غزل کہوں
یہ عجیب آگ کی بیل تھی مرے تن بدن سے لپٹ گئی
مجھے لکھنے والا لکھے بھی کیا مجھے پڑھنے والا پڑھے بھی کیا
جہاں میرا نام لکھا گیا وہیں روشنائی الٹ گئی
نہ کوئی خوشی نہ ملال ہے کہ سبھی کا ایک سا حال ہے
ترے سکھ کے دن بھی گزر گئے مری غم کی رات بھی کٹ گئی
مری بند پلکوں پر ٹوٹ کر کوئی پھول رات بکھر گیا
مجھے سسکیوں نے جگا دیا میری کچی نیند اچٹ گئی
غزل
مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی
بشیر بدر