مری وفا کا ترا لطف بھی جواب نہیں
مرے شباب کی قیمت ترا شباب نہیں
یہ ماہتاب نہیں ہے کہ آفتاب نہیں
سبھی ہے حسن مگر عشق کا جواب نہیں
مری نگاہ میں جلوے ہیں جلوے ہی جلوے
یہاں حجاب نہیں ہے یہاں نقاب نہیں
جنوں بھی حد سے سوا شوق بھی ہے حد سے سوا
یہ بات کیا ہے کہ میں مورد عتاب نہیں
یہاں تو حسن کا دل بھی ہے غم سے صد پارہ
میں کامیاب نہیں وہ بھی کامیاب نہیں
یہاں تو رات کی بیداریاں مسلم ہیں
مگر وہاں بھی حسیں انکھڑیوں میں خواب نہیں
نہ پوچھئے مری دنیا کو میری دنیا میں
خود آفتاب بھی ذرہ ہے آفتاب نہیں
سب ہی ہیں مے کدۂ دہر میں خرد والے
کوئی خراب نہیں ہے کوئی خراب نہیں
مجازؔ کس کو میں سمجھاؤں کوئی کیا سمجھے
کہ کامیاب محبت بھی کامیاب نہیں
غزل
مری وفا کا ترا لطف بھی جواب نہیں
اسرار الحق مجاز