مری طرح سے کہیں خاک چھانتا ہوگا
وہ اپنی ذات کے صحرا میں کھو گیا ہوگا
شرار راکھ میں باقی رہا نہیں کوئی
چراغ دل کا مرے جل کے بجھ گیا ہوگا
جو میری جھیل سی آنکھوں میں ڈوب ڈوب گیا
ستارہ وار کہیں خود کو ڈھونڈھتا ہوگا
پھر آج قریۂ جاں پر عذاب اترے ہیں
کسی نے پھر نیا ترکش سجا لیا ہوگا
چھلکتے جاتے ہیں منظر تمام آنکھوں سے
دریچہ یاد کا شاید کوئی کھلا ہوگا
سماعتوں پہ مری آج کیسی دستک ہے
کوئی ہوا سے پتا میرا پوچھتا ہوگا
وہ شخص میرا شناسا نہیں تو کون ہے وہ
کسی کو ڈھونڈھتا رستہ بھٹک گیا ہوگا
نفس نفس میں کوئی آشکار ہوتا ہے
جو میرے دل کے قریں ہے مرا خدا ہوگا
تری تلاش میں وہ منتشر ہوا ایسا
سراغ اپنا بھی اس کو نہ مل سکا ہوگا
بدلتی رت میں وہ کیسا بدل گیا شہنازؔ
بچھڑ کے مجھ سے کبھی وہ بھی سوچتا ہوگا
غزل
مری طرح سے کہیں خاک چھانتا ہوگا
شہناز مزمل