مری سچائی ہر صورت تری مٹھی سے نکلے گی
انگوٹھی گر کے دریا میں کسی مچھلی سے نکلے گی
فقیروں کو تو اپنی شان و شوکت کیا دکھاتا ہے
حکومت سارے عالم کی مری گٹھری سے نکلے گی
میں تنہا ہی نہیں جو بے سبب سچ بول دیتے ہیں
یہ بیماری غریبوں کی ہر اک بستی سے نکلے گی
انہیں زخموں کو میرے درد کا باعث نہ جانو تم
نشانی اور بھی اجڑی ہوئی دلی سے نکلے گی
محبت کی بلندی پار کر کے تم کبھی دیکھو
انا الحق کی صدا بہتی ہوئی لکڑی سے نکلے گی
غریبی دور کرنے آسماں سے کون آئے گا
خزانے سے بھری گگری اسی مٹی سے نکلے گی
ابھی دو چار جملوں سے بھرا کاغذ کا ٹکڑا ہے
خزاں آنے دو پھر خوشبو مری چٹھی سے نکلے گی
قرابت تو میسر ہے مگر یہ دل کی تنہائی
مری مرضی سے آئی ہے مری مرضی سے نکلے گی
اندھیرا دیکھنا خود لے کے آئے گا دیا میرا
کسی دن روشنی ساگرؔ اسی آندھی سے نکلے گی
غزل
مری سچائی ہر صورت تری مٹھی سے نکلے گی
توفیق ساگر