مری رات میرا چراغ میری کتاب دے
مرا صحرا باندھ لے پاؤں سے مجھے آب دے
مرے نکتہ داں ترا فہم اپنی مثال ہے
میں ہوں ایک سادہ سوال کوئی جواب دے
مری چشم نم کسی رت جگے میں الجھ گئی
مری نیند اوڑھ لے رات بھر مجھے خواب دے
مرے گوشوارے میں کون بھرتا گیا لہو
اے مری طلب مجھے ہر گھڑی کا حساب دے
مرے بحر و بر کو سمیٹ لے مرے کوزہ گر
مجھے ان کہی مجھے آگہی کا عذاب دے
غزل
مری رات میرا چراغ میری کتاب دے
بشریٰ اعجاز