مری نظر سے جو نظریں بچائے بیٹھے ہیں
خبر بھی ہے انہیں کیا گل کھلائے بیٹھے ہیں
ہزار بار جلے جس سے بال و پر اپنے
اسی چراغ سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں
جو شاخ شوخیٔ برق تپاں سے ہے مانوس
اسی پہ آج نشیمن بنائے بیٹھے ہیں
پھر اس کے وعدۂ فردا کا ہو یقیں کیسے
ہزار بار جسے آزمائے بیٹھے ہیں
شب فراق کی ہم تیرگی سے گھبرا کر
چراغ زخم غم دل جلائے بیٹھے ہیں
اسے حجاب کہوں یا کہوں پشیمانی
مرے مزار پہ وہ سر جھکائے بیٹھے ہیں
ہم ایک قطرۂ قلب حزیں میں اے اقبالؔ
غم حیات کے طوفاں چھپائے بیٹھے ہیں
غزل
مری نظر سے جو نظریں بچائے بیٹھے ہیں
اقبال حسین رضوی اقبال