EN हिंदी
مری نظر مرا اپنا مشاہدہ ہے کہاں | شیح شیری
meri nazar mera apna mushahida hai kahan

غزل

مری نظر مرا اپنا مشاہدہ ہے کہاں

عاصمؔ واسطی

;

مری نظر مرا اپنا مشاہدہ ہے کہاں
جو مستعار نہیں ہے وہ زاویہ ہے کہاں

اگر نہیں ترے جیسا تو فرق کیسا ہے
اگر میں عکس ہوں تیرا تو آئنہ ہے کہاں

ہوئی ہے جس میں وضاحت ہمارے ہونے کی
تری کتاب میں آخر وہ حاشیہ ہے کہاں

یہ ہم سفر تو سبھی اجنبی سے لگتے ہیں
میں جس کے ساتھ چلا تھا وہ قافلہ ہے کہاں

مدار میں ہوں اگر میں تو ہے کشش کس کی
اگر میں خود ہی کشش ہوں تو دائرہ ہے کہاں

تری زمین پہ کرتا رہا ہوں مزدوری
ہے سوکھنے کو پسینہ معاوضہ ہے کہاں

ہوا بہشت سے بے دخل جس کے باعث میں
مری زبان پر اس پھل کا ذائقہ ہے کہاں

ازل سے ہے مجھے درپیش دائروں کا سفر
جو مستقیم ہے یا رب وہ راستہ ہے کہاں

اگرچہ اس سے گزر تو رہا ہوں میں عاصمؔ
یہ تجربہ بھی مرا اپنا تجربہ ہے کہاں