EN हिंदी
مری نظر کو در و بام پر لگایا ہوا ہے | شیح شیری
meri nazar ko dar-o-baam par lagaya hua hai

غزل

مری نظر کو در و بام پر لگایا ہوا ہے

ندیم احمد

;

مری نظر کو در و بام پر لگایا ہوا ہے
چلو کسی نے مجھے کام پر لگایا ہوا ہے

وہ اور ہوں گے جو صحرا میں پا بہ جولاں ہیں
مجھے تو شہر نے احکام پر لگایا ہوا ہے

اگر وہ آیا تو اس بار صبح مانوں گا
بہت دنوں سے مجھے شام پر لگایا ہوا ہے

کبھی تو لگتا ہے یہ عذر لنگ ہے ورنہ
مجھے تو کفر نے اسلام پر لگایا ہوا ہے

وہ اور لوگ ہیں جو اس کے پاس بیٹھے ہیں
ہمیں تو اس نے کسی کام پر لگایا ہوا ہے