مری محبت کی بے خودی کو تلاش حق جلال دینا
کبھی جو پابندۂ ستم ہوں مجھے بھی عزم مقال دینا
محبتوں کی یہ شوخیاں ہیں یہ اعتماد وفا ہے میرا
بگڑ کے فہرست عاشقاں سے کہیں نہ مجھ کو نکال دینا
رہ محبت کی سختیوں سے جو رنگ رخ تھا جھلس چکا ہے
تمہاری الفت پہ مر رہے ہیں مرا بھی چہرا اجال دینا
تمہارا سب ہم کو جانتے ہیں تو اپنی عزت کی لاج رکھ کے
ہماری ہستی کے آئنے کو کوئی ہنر کچھ کمال دینا
تمہی تو ہو میر میکدے کے تمہی ہو ساقئ تشنہ کامی
ہم اپنا ساغر لیے کھڑے ہیں ذرا سی اس میں بھی ڈھال دینا
سنی ہیں فیاضیاں تمہاری تمہارے مستوں میں ہے یہ شہرت
ہے میرے ساقی کا یہ وطیرہ کہ جام بھر کر ابال دینا
پسند ہیں تم کو بھیگی آنکھیں لرزتے لب اور اداس چہرے
وصال کا جب ارادہ کرنا مجھے بھی رنگ ملال دینا

غزل
مری محبت کی بے خودی کو تلاش حق جلال دینا
عفت عباس