مری خموشی کو بھی اک صدا سمجھتے رہے
میں کیا تھا اور مجھے لوگ کیا سمجھتے رہے
ہماری نسل کو عجلت نے نا مراد کیا
ذرا سے شور کو یہ دیر پا سمجھتے رہے
یہ دوست میرے مجھے آج تک نہ جان سکے
میں ایک درد تھا لیکن دوا سمجھتے رہے
دکھائی دیتا تھا یہ شہر میری آنکھوں سے
یہاں کے لوگ مجھے آئنہ سمجھتے رہے
خیال یار کی چادر تھی ایک خواب عزیزؔ
یہ اور بات اسے ہم قبا سمجھتے رہے

غزل
مری خموشی کو بھی اک صدا سمجھتے رہے
وقاص عزیز