مری جدائی میں آنسو بہائے جاتے ہیں
یہ فتنہ میری لحد پر جگائے جاتے ہیں
ضیائے حسن کو درگاہ دل ترستی ہے
چراغ دیر و حرم میں جلائے جاتے ہیں
نہیں ستاتے کسی کو بھی جو زمانے میں
وہی زمانے میں اکثر ستائے جاتے ہیں
ضیائے حسن سے ہوتا ہے جن کا دل معمور
چراغ گور پر ان کی جلائے جاتے ہیں
فسانوں سے نہیں بنتیں حقیقتیں لیکن
حقیقتوں سے فسانے بنائے جاتے ہیں
کہیں غرور تکبر کہیں فتور خودی
ہماری راہ میں رہزن بٹھائے جاتے ہیں
ادب کی محفل رنگیں میں رات دن فارغؔ
مرے فسانے ہی اکثر سنائے جاتے ہیں

غزل
مری جدائی میں آنسو بہائے جاتے ہیں
لکشمی نارائن فارغ