EN हिंदी
مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے | شیح شیری
meri jaan ranj ghaTaiye qadam aage ab na baDhaiye

غزل

مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے

نسیم دہلوی

;

مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے
ادھر آئیے ادھر آئیے ادھر آئیے ادھر آئیے

کھڑے کب سے ہم سر راہ ہیں کہیں مر چکیں کہ تباہ ہیں
ہدف خدنگ نگاہ ہیں ذرا آنکھ ادھر بھی ملائیے

بھلا آنا آپ کا کام ہے یہ غلط تمام کلام ہے
اجی بس ہمارا سلام ہے کہیں اور باتیں بنائیے

تہ تیغ تیز ہے اک جہاں کوئی کشتہ ہے کوئی نیم جاں
جو نہ ہو دریغ تو مہرباں کوئی ہاتھ ادھر بھی لگائیے

کبھی مے سے منہ کو نہ موڑیئے ہوس شراب نہ چھوڑیئے
سر محتسب ہے نہ توڑیئے جو کمال گیت پر آئیے

یہ کمال لطف ہے ساقیا یہی ہے ہوس یہی مدعا
رہے ہوش سر نہ خیال پا اگر ایسی مے ہے تو لائیے

جو وفور چشم پر آب ہو تو جہان تختۂ آب ہو
ابھی نوح کا سا عذاب ہو اگر اشک چند بہائیے

وہ کہا عدو سے ہے میں نے کیا کہ ہوئے ہیں آپ جو یوں خفا
یہ غضب یہ جھوٹ یہ افترا مرے سامنے تو بلائیے

غزل ایسی کامل وزن سن متفاعلن متفاعلن
ہے نسیمؔ طاقت ہوش سن کوئی شعر اور سنائیے