مری حیات کو بے ربط باب رہنے دے
ورق ورق یوں ہی غم کی کتاب رہنے دے
میں راہگیروں کی ہمت بندھانے والا ہوں
مرے وجود میں شامل شراب رہنے دے
تباہ خود کو میں کر لوں بدن کو چھو کے ترے
تو اپنے لمس کا مجھ پر عذاب رہنے دے
ذرا ٹھہر کہ ابھی خون میں سمائی نہیں
مرے قریب بدن کی شراب رہنے دے
بھلا چکا ہوں میں سب کچھ دلا نہ یاد مجھے
جو کھو چکا ہوں اب اس کا حساب رہنے دے
جلا لیا ہے بدن اپنی آگ میں میں نے
بجھا نہ اس کو ابھی یہ عذاب رہنے دے
غزل
مری حیات کو بے ربط باب رہنے دے
احتشام اختر