مری ہستی سزا ہونے سے پہلے
میں مر جاتا بڑا ہونے سے پہلے
ہمارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا
وہ اک بندہ خدا ہونے سے پہلے
وہ قبلہ اس گلی سے جا چکا تھا
نماز دل ادا ہونے سے پہلے
محبت اک مسلسل حادثہ تھی
ہمارے بے وفا ہونے سے پہلے
میں اپنی ذات سے نا آشنا تھا
خدا سے آشنا ہونے سے پہلے
خزاں میں پھول سا لگتا تھا مجھ کو
وہ پتھر آئنا ہونے سے پہلے
بہت مضبوط سی دیوار تھا میں
کسی کا راستا ہونے سے پہلے

غزل
مری ہستی سزا ہونے سے پہلے
اسحاق وردگ