مری دنیا اکیلی ہو رہی ہے
تمنا گھر میں تنہا سو رہی ہے
صدائیں گھٹ گئیں سینے کے اندر
خموشی اپنی پتھر ہو رہی ہے
تمناؤں کے سینے پر رکھے سر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
سنا ہے اپنا چہرہ زندگانی
مسلسل آنسوؤں سے دھو رہی ہے
یہاں سے اور وہاں تک نا امیدی
ہمارے دل کا عنواں ہو رہی ہے
غزل
مری دنیا اکیلی ہو رہی ہے
اظہر نیر