مری دسترس میں ہے گر قلم مجھے حسن فکر و خیال دے
مجھے شہر یار سخن بنا اور عنان شہر کمال دے
مری شاخ شعر رہے ہری دے مرے سخن کو صنوبری
مری جھیل میں بھی کنول کھلا مری گدڑیوں کو بھی لعل دے
تری بخششوں میں ہے سروری مرے عشق کو دے قلندری
جو اٹھے تو دست دعا لگے مجھے ایسا دست سوال دے
رگ جاں میں جمنے لگا لہو اسے مشک بننے کی آرزو
ہے اداس دشت تتار دل اسے پھر شلنگ غزال دے
کوئی بات عقرب و شمس کی کوئی ذکر زہرہ و مشتری
تو بڑا ستارہ شناس ہے مجھے کوئی اچھی سی فال دے
ہیں یہ جسم و جاں کی قیود کیا خد و خال کے یہ حدود کیا
میں ہوں عکس منظر ماورا مجھے آئنوں سے نکال دے
میں وہی ہوں تشنۂؔ با وفا مرا آج بھی وہی مدعا
نہ فراق دے مجھے مستقل نہ مجھے ہمیشہ وصال دے
غزل
مری دسترس میں ہے گر قلم مجھے حسن فکر و خیال دے
عالم تاب تشنہ