EN हिंदी
مری ڈگر سے بھی اک دن گزر کے دیکھ ذرا | شیح شیری
meri Dagar se bhi ek din guzar ke dekh zara

غزل

مری ڈگر سے بھی اک دن گزر کے دیکھ ذرا

مرلی دھر شرما طالب

;

مری ڈگر سے بھی اک دن گزر کے دیکھ ذرا
اے آسمان زمیں پر اتر کے دیکھ ذرا

دھڑکنے لگتے ہیں دیوار و در بھی دل کی طرح
کہ سنگ و خشت میں کچھ سانس بھر کے دیکھ ذرا

ہر ایک عیب ہنر میں بدل بھی سکتا ہے
حساب اپنے گناہوں کا کر کے دیکھ ذرا

تو چپ رہے گا ترے ہاتھ پاؤں بولیں گے
یقیں نہ آئے تو اک روز مر کے دیکھ ذرا

اٹھے جدھر بھی نظر روشنی ادھر جائے
کرشمے کیسے ہیں اس کی نظر کے دیکھ ذرا

مسیحا ہو کے بھی ہوتا نہیں مسیحا کوئی
تو زخم زخم کسی دن بکھر کے دیکھ ذرا

خموشیوں کو بھی طالبؔ زبان ہے کہ نہیں
سکوت دریا کے اندر اتر کے دیکھ ذرا