EN हिंदी
مری باتوں پہ دنیا کی ہنسی کم ہوتی جاتی ہے | شیح شیری
meri baaton pe duniya ki hansi kam hoti jati hai

غزل

مری باتوں پہ دنیا کی ہنسی کم ہوتی جاتی ہے

آنند نرائن ملا

;

مری باتوں پہ دنیا کی ہنسی کم ہوتی جاتی ہے
مری دیوانگی شاید مسلم ہوتی جاتی ہے

توجہ کی نظر میری طرف کم ہوتی جاتی ہے
میں خوش ہوں عشق کی بنیاد محکم ہوتی جاتی ہے

ضرورت کچھ بھی کہنے کی بہت کم ہوتی جاتی ہے
مری صورت ہی اب شوق مجسم ہوتی جاتی ہے

کبھی تو نے پکارا تھا مجھے کچھ شک سا ہوتا ہے
مرے کانوں میں اک آواز پیہم ہوتی جاتی ہے

مجھے سمجھانے آئے ہیں کہ میں رونے سے باز آؤں
مرے سمجھانے والوں کی نظر نم ہوتی جاتی ہے

ابھی سن لو تو شاید سن سکو تم دل کے نغموں کو
کہ اب اس کی صدا کچھ خودبخود کم ہوتی جاتی ہے

وہی دل ہے مگر اب وہ نہیں اگلی سی بیتابی
وہی خوں ہے مگر رفتار مدھم ہوتی جاتی ہے

تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے
ترے ہاتھوں بہت توہین آدم ہوتی جاتی ہے

نشاط زیست کی ضامن ہے اب یاد‌ محبت ہی
یہی خود عشق کے زخموں کا مرہم ہوتی جاتی ہے

محبت ہی سے کھولو تم دل ملاؔ کا دروازہ
یہی اس کے لیے اب اسم اعظم ہوتی جاتی ہے