مری بات کا جو یقیں نہیں مجھے آزما کے بھی دیکھ لے
تجھے دل تو کب کا میں دے چکا اسے غم بنا کے بھی دیکھ لے
یہ تو ٹھیک ہے کہ تری جفا بھی اک عطا مرے واسطے
مری حسرتوں کی قسم تجھے کبھی مسکرا کے بھی دیکھ لے
مرا دل الگ ہے بجھا سا کچھ ترے حسن پر بھی چمک نہیں
کبھی ایک مرکز زیست پر انہیں ساتھ لا کے بھی دیکھ لے
مرے شوق کی ہیں وہی ضدیں ابھی لب پہ ہے وہی التجا
کبھی اس جلے ہوئے طور پر مجھے پھر بلا کے بھی دیکھ لے
نہ مٹے گا نقش وفا کبھی نہ مٹے گا ہاں نہ مٹے گا یہ
کسی اور کی تو مجال کیا اسے خود مٹا کے بھی دیکھ لے
کسی گل فسردۂ باغ ہوں مرے لب ہنسی کو بھلا چکے
تجھے اے صبا جو نہ ہو یقیں مجھے گدگدا کے بھی دیکھ لے
مرے دل میں تو ہی ہے جلوہ گر ترا آئنہ ہوں میں سربسر
یوں ہی دور ہی سے نظر نہ کر کبھی پاس آ کے بھی دیکھ لے
مرے ظرف عشق پہ شک نہ کر مرے حرف شوق کو بھول جا
جو یہی حجاب ہے درمیاں یہ حجاب اٹھا کے بھی دیکھ لے
یہ جہان ہے اسے کیا پڑی ہے جو یہ سنے تری داستاں
تجھے پھر بھی ملاؔ اگر ہے ضد غم دل سنا کے بھی دیکھ لے
غزل
مری بات کا جو یقیں نہیں مجھے آزما کے بھی دیکھ لے
آنند نرائن ملا