EN हिंदी
مری آنکھوں میں منظر دھل رہا تھا | شیح شیری
meri aankhon mein manzar dhul raha tha

غزل

مری آنکھوں میں منظر دھل رہا تھا

عنبرین صلاح الدین

;

مری آنکھوں میں منظر دھل رہا تھا
سر مژگاں ستارا گھل رہا تھا

بہت سے لفظ دستک دے رہے تھے
سکوت شب میں رستہ کھل رہا تھا

جو اگلا وقت کے آتش فشاں نے
وہ لمحہ خاک میں پھر رل رہا تھا

ہوا تھا قرمزی پانی جہاں سے
وہاں کل شام تک اک پل رہا تھا

تمہارے نام سے آگے کا رستہ
اجل کی آہٹوں میں کھل رہا تھا