مری آنکھوں میں منظر دھل رہا تھا
سر مژگاں ستارا گھل رہا تھا
بہت سے لفظ دستک دے رہے تھے
سکوت شب میں رستہ کھل رہا تھا
جو اگلا وقت کے آتش فشاں نے
وہ لمحہ خاک میں پھر رل رہا تھا
ہوا تھا قرمزی پانی جہاں سے
وہاں کل شام تک اک پل رہا تھا
تمہارے نام سے آگے کا رستہ
اجل کی آہٹوں میں کھل رہا تھا
غزل
مری آنکھوں میں منظر دھل رہا تھا
عنبرین صلاح الدین