EN हिंदी
مری آنکھوں میں دریا جھولتا ہے | شیح شیری
meri aankhon mein dariya jhulta hai

غزل

مری آنکھوں میں دریا جھولتا ہے

کشور ناہید

;

مری آنکھوں میں دریا جھولتا ہے
یہ پانی اب کنارہ ڈھونڈتا ہے

یہ پانی ریت کی تہہ سے گزر کر
تعلق ہے تو رستہ ڈھونڈتا ہے

تعلق کو نہ سمجھو جاودانی
یہ آئینہ ہوا سے ٹوٹتا ہے

ہماری پیاس رخصت چاہتی ہے
پیالہ ہاتھ سے اب چھوٹتا ہے