مری آنکھوں میں دریا جھولتا ہے
یہ پانی اب کنارہ ڈھونڈتا ہے
یہ پانی ریت کی تہہ سے گزر کر
تعلق ہے تو رستہ ڈھونڈتا ہے
تعلق کو نہ سمجھو جاودانی
یہ آئینہ ہوا سے ٹوٹتا ہے
ہماری پیاس رخصت چاہتی ہے
پیالہ ہاتھ سے اب چھوٹتا ہے

غزل
مری آنکھوں میں دریا جھولتا ہے
کشور ناہید