مری آہ و فغاں کچھ بھی نہیں ہے
جلے دل کا دھواں کچھ بھی نہیں ہے
نہ تڑپایا کسی ظالم کو اس نے
مری طرز بیاں کچھ بھی نہیں ہے
جہاں ہو بجلیوں کا خوف پیہم
سکون آشیاں کچھ بھی نہیں ہے
ہر اک شے بن گئی شیشہ کی مانند
اب اپنے درمیاں کچھ بھی نہیں ہے
خدا گو ذرہ ذرہ سے عیاں ہے
مگر ذرہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے
جو دیکھو تو سبھی کچھ ہے جہاں میں
جو سمجھو تو جہاں کچھ بھی نہیں ہے
توانائی کی دنیا میں اے مغمومؔ
بساط ناتواں کچھ بھی نہیں ہے
غزل
مری آہ و فغاں کچھ بھی نہیں ہے
گور بچن سنگھ دیال مغموم