مرے وجود سے آتی ہے اک صدا مجھ کو
کہ میرے جسم سے کر دے کوئی جدا مجھ کو
مری تلاش کا حاصل فقط تحیر ہے
میں کھو گیا ہوں کہاں خود نہیں پتا مجھ کو
میں اپنے جسم کے اندر سمٹ کے بیٹھا ہوں
بلا رہا ہے کہیں دور سے خدا مجھ کو
میں تجھ کو دیکھوں مگر گفتگو نہ کر پاؤں
خدا کے واسطے ایسی نہ دے سزا مجھ کو
وہ لہجہ اب بھی تصور میں گونجتا ہے اثرؔ
وہ چہرا اب بھی دکھاتا ہے آئینا مجھ کو
غزل
مرے وجود سے آتی ہے اک صدا مجھ کو
محمد علی اثر