مرے وجود میں وہ اس طرح سمو جائے
جو میرے پاس ہے سب کچھ اسی کا ہو جائے
ابھی تو آنکھ کے اندر ہے تیرتا آنسو
ٹپک پڑا تو نہ گھر ہی کہیں ڈبو جائے
خوشی ملے بھی تو یہ دل اداس رہتا ہے
بس ایک خوف سا رہتا ہے کچھ نہ ہو جائے
تمہیں یقیں ہے کہ منزل ہے دو ہی قدموں پر
مجھے یہ ڈر ہے کہیں راستہ نہ کھو جائے
تمام قافلہ اب جاگتا ہے اس ڈر سے
کہیں امیر نہ غفلت کی نیند سو جائے
کبھی تو خواب بھی تعبیر پا سکیں اپنے
یہ دائروں کا سفر جو تمام ہو جائے
غزل
مرے وجود میں وہ اس طرح سمو جائے
جلیل حیدر لاشاری