مرے وجود کے آنگن میں خواب روشن تھا
سواد ہجر میں تازہ گلاب روشن تھا
کلی کلی کی زباں پر عذاب روشن تھا
اے ہم سفر دل خانہ خراب روشن تھا
یہ کس حساب میں جھیلی ہے میں نے در بہ دری
ترے سوال بدن پر جواب روشن تھا
میں اپنی آگ سے کھیلا میں اپنے آپ جلا
حصار لمس میں اترا سحاب روشن تھا
تو رت جگوں کی مسافت میں گم ہوا خورشیدؔ
اک آفتاب پس آفتاب روشن تھا
غزل
مرے وجود کے آنگن میں خواب روشن تھا
اعظم خورشید